Getting Free & Impartial Advice!

Islamic Queries

Resolve your Islamic queries with our most experienced and professional Mufti's team.

Our Agenda

Message from our Alim e Deen

We need to understand the true knowledge of Islamic Shariah from authentic Alim.

We can help in your Islamic Queries!

Our experienced Mufti's team can help and resolve your Islamic related queries according to Shariah.

Request a Call?

Schedule an Appointment

For any query, schedule an appointment with our Alim e Deen

Per live query (call session) you have to contact us and donate 10$ for our non-profit projects.

0

Islamic Q/A

0 +

Rating

0

Islamic Awards

Qarbani & Eid ul Adha (Q/A)

ہربالِغ ،مُقیم، مسلمان مردو عورت ، مالکِ نصاب پر قربانی واجِب ہے۔(عالمگیری ج۵ص۲۹۲) مالکِ نصاب ہونے سے مُراد یہ ہے کہ اُس شخص کے پاس ساڑھے باوَن تولے چاندی یا اُتنی مالیَّت کی رقم یا اتنی مالیَّت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اور اُس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّیا بندوں کا اِتنا قَرضہ نہ ہو جسے ادا کر کے ذِکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔ فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :حاجتِ اَصلِیّہ(یعنی ضَروریاتِ زندگی) سے مُراد وہ چیزیں ہیں جن کی عُمُوماً انسان کو ضَرورت ہوتی ہے اور ان کے بِغیر گزراوقات میں شدید تنگی ودُشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے، سُواری ، علمِ دین سے متعلِّق کتابیں اور پیشے سے متعلِّق اَوزار وغیرہ۔(الھدایۃ ج۱ص۹۶)اگر ’’حاجتِ اَصلِیَّہ ‘‘کی تعریف پیشِ نظر رکھی جائے تو بخوبی معلوم ہو گا کہ ’’ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ‘‘ایسی ہیں کہ جو حاجتِ اَصلِیَّہ میں داخِل نہیں چُنانچہ اگر ان کی قیمت ’’ساڑھے باوَن تولہ چاندی ‘‘ کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہو گی۔
حضور ﷺ نے فرمایا مسنہ یعنی بکری کی عمر ایک سال گاۓ کی عمر دو سال اور اونٹ کی عمر پانچ سال ہو تو ان جانوروں کی قربانی کرو اگر ان عمروں کے جانور نہ پاو تو بھیڑ یا دنبہ کے چھ ماں کے بچے کی قربانی کرو جو دیکھنے میں سال بھر کا لگتا ہو۔ حوالہ صحیح مسلم حدیث نمبر 5082
جس کے پاس زیور ہو یا مال جو نصاب کی حد کو پہنچتا ہو اس پر زکوۃ، قربانی اور فطرانہ واجب ہونگے۔ فرق صرف یہ ہے زکوۃ کے لئے زیور یا مال پر سال گزرنا ضروری ہے، جبکہ قربانی اور فطرانہ کے لئے ان ایام میں بندہ صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ استعمال کی اشیاء کے علاوہ سونا، چاندی یا اس کے علاوہ جو بھی مال ودولت ہو سب مل کر ساڑھے سات تولے سونے یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو تو اس میں سے اڑھائی فیصد زکوۃ ادا کریں گے۔ اگر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہو تو قربانی واجب ہو گی۔ یہی حکم صدقہ فطر کا ہے کہ ان ایام میں صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر واجب ہو گا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مرد صاحب نصاب ہے تو زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر مرد پر واجب ہو گا اور عورت صاحب نصاب ہو گی تو وہ الگ زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر ادا کرے گی۔
قربانی کے وجوب کے لیے حاجات اصلیہ(ضرورت کی اشیاء) کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا ہونا ضروری ہے ,خواہ وہ سونے کی صورت میں ہو، چاندی کی صورت میں ہو ، مال تجارت کی صورت میں ہو یا دوسری نقدی کی صورت میں یا ان سب کو ملا کر اتنی مالیت بن جائے۔
حدیث نمبر:3123 ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا. ترجمہ: ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے ۔ وُسعت سے مراد صاحب نصاب ہونا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 364) اور نصاب اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔
قربانی کا وہی نصاب(ساڑھے سات تولہ سونا ،ساڑھے باون تولہ چاندی ،یا اس کے برابر مال تجارت یا نقدی وغیرہ) ہے جو زکوٰۃ کا ہے لیکن قربانی کے نصاب میں سال گزرنا شرط نہیں ہے,جیسے کے در مختار میں ہے ، و اليسار التی یتعلق به صدقة الفطر, ترجمہ : (قربانی میں)وُسعت سے مراد وہی نصاب ہے جو صدقۃ الفطر کے متعلقہ ہے , نوٹ: کسی کے پاس نصاب میں صرف سونا موجود ہے یا چاندی تو قربانی چاندی کے کی مالیت کے حساب سے ادا کرے گا, موجودہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت معلوم کی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ اگر اتنی مالیت کا سونا موجود ہے یا سونا اور چاندی دونوں موجود ہیں جن کی مالیت اتنی بنتی ہے یا نقدی رقم اتنی موجود ہے تو ان سب صورتوں میں قربانی واجب ہے
حضور ﷺنے فرمایا ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جاۓ جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور نہ ہی ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو اور نہ ایسے لاغر اور کمزور جانور کی قربانی کی جاۓ جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو ۔ حوالہ جامع ترمزی حدیث نمبر 1497
قحط سالی کی وجہ سے حضور ﷺ نے قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تھا پھر بعد میں آپﷺ نے ذخیرہ کرنے کی اجازت مرحمت فرماٸ حضور نے فرمایا سو اب جتنا چاہو خود کھاو دوسروں ِ کو بھی کھلاٶ اور جمع بھی کرو حوالہ جامع ترمزی حدیث نمبر 1510
حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں {1}رگوں کا خون {2}پِتّا {3}پُھکنا (یعنی مَثانہ) {4،5} علاماتِ مادہ ونَر {6} بَیضے (یعنی کپورے){7}غُدود {8}حرام مَغز {9}گردن کے دوپٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں {10}جگر (یعنی کلیجی) کا خون {11}تِلی کا خون {12} گوشْتْ کا خون کہ بعدِ ذَبْح گوشْتْ میں سے نکلتا ہے {13}دل کا خون {14}پِت یعنی وہ زَرد پانی کہ پِتّے میں ہوتاہے {15}ناک کی رَطُوبت کہ بَھیڑ میں اکثر ہوتی ہے {16} پاخانے کا مقام {17}اَوجھڑی {18}آنتیں {19}نُطْفہ([1]){20}وہ نُطْفہ کہ خون ہوگیا {21} وہ (نُطْفہ) کہ گوشْتْکا لوتھڑا ہوگیا {22}وہ کہ(نُطْفہ)پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذَبْح مرگیا۔ (فتاوٰی رضویہج۲۰ ص ۲۴۰ ، ۲۴۱)
جس کے پاس زیور ہو یا مال جو نصاب کی حد کو پہنچتا ہو اس پر زکوۃ، قربانی اور فطرانہ واجب ہونگے۔ فرق صرف یہ ہے زکوۃ کے لئے زیور یا مال پر سال گزرنا ضروری ہے، جبکہ قربانی اور فطرانہ کے لئے ان ایام میں بندہ صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ استعمال کی اشیاء کے علاوہ سونا، چاندی یا اس کے علاوہ جو بھی مال ودولت ہو سب مل کر ساڑھے سات تولے سونے یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو تو اس میں سے اڑھائی فیصد زکوۃ ادا کریں گے۔ اگر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہو تو قربانی واجب ہو گی۔ یہی حکم صدقہ فطر کا ہے کہ ان ایام میں صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر واجب ہو گا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مرد صاحب نصاب ہے تو زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر مرد پر واجب ہو گا اور عورت صاحب نصاب ہو گی تو وہ الگ زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر ادا کرے گی۔
اگر صاحب نصاب آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور قربانی سے پہلے مرگیا یا گم ہوگیا تو اس صورت میں اس شخص پر دوسری قربانی کرناواجب ہے۔ اور اگر جانور خریدنے والا شخص غریب ہو اور اسکا جانور قربانی سے پہلے مرگیا یاگم ہوگیا، تو اس پر دوسری قربانی واجب نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :دلائل الھندیۃ: (299/5، ط: دار الفکر) ولو اشترى أضحية وهي صحيحة العين، ثم اعورت عنده وهو موسر أو قطعت أذنها كلها أو أليتها أو ذنبها أو انكسرت رجلها فلم تستطع أن تمشي لا تجزي عنه، وعليه مكانها أخرى بخلاف الفقير، وكذلك لو ماتت عنده أو سرقت الدر المختار: (325/6، ط: دار الفکر) (ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك)۔۔۔وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير ولو ضلت أو سرقت فشرى أخرى فظهرت فعلى الغني إحداهما وعلى الفقير كلاهما شمني.
حاملہ جانور کی قربانی کرنا درست ہے اور اس کے پیٹ کا بچہ حلال ہے، ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اونٹنی، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اسے پھینک دیں یا کھا لیں؟ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اسے کھا لو بےشک اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الضحایا باب ماجاء فی ذکاۃ الجنین 2842)
اگرقربانی کے ایام گزرجائیں اورصاحبِ نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی تواب قربانی کی قضا یا کفارہ تو واجب نہیں ہوگا، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 320): ’’ (ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا۔ (قوله: ولو تركت التضحية إلخ) شروع في بيان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء في الجملة، كما في البدائع. (قوله: ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله: تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة.
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے پاس صرف حرام مال ہے یا اس کی غالب آمدنی حرام ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ طیب ہیں اور مالِ طیب سے ہی صدقہ اور عبادت قبول فرماتے ہیں۔ اور اگر اس شخص کے پاس صرف حرام مال ہی ہو تو اس حرام مال پر قربانی واجب بھی نہیں ہوگی۔ اگر اس کے پاس حلال مال نصاب کے برابر ہو تو اس پر حلال رقم سے قربانی کرنا لازم ہوگا۔ واضح رہے کہ حرام مال پر قربانی اس لیے واجب نہیں ہوتی کہ اس پر صاحبِ قبضہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ مالِ حرام کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر بلاعوض حاصل ہو تو اسے مالک یا اس کے ورثہ تک پہنچانا لازم ہے۔ مالک اور ورثہ تک پہنچانا ممکن نہ ہو یا مالِ حرام بالعوض حاصل ہوا ہو تو اسے مستحقِ زکاۃ کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ حرام اور ناپاک مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتے؛ اس لیے حرام مال پر قربانی بھی واجب نہیں ہوگی۔ صحيح مسلم (2/ 703): "عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لايقبل إلا طيباً، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحاً، إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172]، ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟ " الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 291) " في القنية: لو كان الخبيث نصاباً لايلزمه الزكاة ؛ لأن الكل واجب التصدق عليه؛ فلايفيد إيجاب التصدق ببعضه". فقط واللہ اعلم
شرعی طور پر ذبح کے لیے چند شرائط فقہاء کرام نے ذکر کی ہیں ان کا ذبح میں ہونا ضروری ہے۔ ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب ہو۔ ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا۔ فقہا احناف کے نزدیک تین رگوں کا کاٹنا ضروری ہے بہتر چار رگوں کا کاٹنا ہے۔ مگر کم از کم تین ضروری ہیں۔ تیز دھار آلہ سے کاٹنا۔ جمہور علماء کے نزدیک سینہ کے بالائی اور جبڑوں کے درمیان سے کاٹنا۔ مشین کے ذریعے ذبح میں اگر یہ شرائط پائی جائیں تو ذبح درست ہے ورنہ نہیں۔ مشین کے ذریعے ذبح کرتے وقت ہر جانور پر الگ الگ بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح سے پہلے یہ جانور کسی اور وجہ سے مرا ہوا نہ ہو یعنی ذبح کے وقت جانور کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ. (الانعام، 6 : 118) سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو۔ اس آیت مبارکہ میں "ذُکِرَ" مجہول کا صیغہ آیا ہے یعنی جس پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کا اسم مبارک لیا جائے وہ ذبیحہ کھایا کرو۔ لازم نہیں ہے فاعل موجود ہو اس لیے ریکارڈنگ بھی چل رہی ہو تو حکم پورا ہو جائے گا۔ لیکن ریکارڈنگ والی آواز مسلمان یا کتابی کی ہونی چاہیے۔ لہذا مشینی ذبیحہ ریکارڈنگ کے ذریعے ہو تو جائز ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
در مختار میں ہے:”تجب شاۃ أو سبع بدنۃ ھی الإبل و البقر، و لو لأحدھم أقل من سبع لم یجز عن أحد، و تجزی عما دون سبعۃ بالأولی“ ترجمہ : ایک بکری یا بڑے جانور جیسے اونٹ اور گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کا ساتویں حصے سے کم ہو ،تو کسی ایک کی طرف سے بھی جائز نہیں ہو گی اور اگر شریک سات سے کم ہیں، تو قربانی بدرجہ ٔ اولیٰ جائز ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد9،صفحہ524،525 ،مطبوعہ اس لیے قربانی میں اسکی شراٸط پایا جانا ضروری ہے۔ اگر کسی بزرگ کی طرف سے تمام افراد ملکر ساتواں حصہ مکمل کرتے ہیں تو اس صورت میں قربانی ہو جاۓ گی۔ وللّٰہ اعلم بالصواب۔۔۔
واضح رہے کہ قربانی کے جانور کی کھال کو قربانی کرنے والا فروخت کئے بغیر خود بھی استعمال کرسکتا ہے٬ کسی کو بطور ہدیہ دے سکتا ہے٬ اور فقراء اور مساکین پر صدقہ بھی کیا جا سکتا ہے. اگر کھال فروخت کر دی جائے، تو اس کی قیمت کا مصرف وہی ہے، جو زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا مصرف ہے، لہذا جس طرح زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کسی رفاہی کام مثلاً: تعمیر وغیرہ میں خرچ نہیں ہوتے، اسی طرح قربانی کی کھالوں کی قیمت بھی رفاہی کاموں میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی تنظیم کے بارے میں پورا اطمینان ہو کہ وہ کھال کو اس کے صحیح مصرف مثلاً: فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کا اہتمام کرتی ہے، تو اسے کھال دینا جائز ہے اور جو تنظیم اس کھال کو بجائے فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کے، اس کی قیمت رفاہی کاموں مثلاً: سڑک وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کرتی ہے، تو اسے کھال دینا جائز نہیں ہے٬ تاہم اس سے قربانی فی نفسہ ادا ہو جاۓگی ۔
۔1 زکوۃ دینا فرض ہے، اگر کسی بھی مسلمان کے پاس اتنا مال ہے کہ وہ نصاب تک پہنچ جاتا ہے اور اس مال پر ایک سال گزر جاتا ہے تو ایسا صاحب نصاب شخص زکوۃ دے گا۔ ۔2 قربانی دینا واجب ہے، صاحب نصاب شخص کے لئے عیدالاضحی پر قربانی دینا واجب ہے۔ دوسری بات یہ کہ زکوۃ اور قربانی الگ الگ کی جائے گی۔ زکوۃ کے پیسوں سے قربانی دینا جائز نہیں۔ زکوۃ الگ دیں گے، جب آپ کے مال پر ایک سال گزرے گا اور قربانی ہر سال عید الاضحی کے موقع پر اپنے مال میں سے دیں گے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
قربانی کا جانور خریدنے کے بعد بیچنا صحیح نہیں اگر کسی نے بیچ دیا تو پھر اس سے اعلی جانور خرید کر قربانی کرنا افضل ہے قربانی کے جانور سے نفع حاصل کرنا مکروہ ھے اگر کسی نے نفع حاصل کر لیا یعنی دودھ استعمال کیا یا سواری کر لی یا جانور اجرت پر دے دیا ان تمام صورتوں میں جتنا نفع حاصل کیا اتنی مقدار میں صدقہ کرنا چاہیے_ حوالہ رد المختار جلد ٩ ص 544
درج ذیل شرائط جس مرد و عورت میں پائی جائیں اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔ عاقل ہونا مجنون ، پاگل اور دیوانے پر قربانی واجب نہیں۔ بالغ ہونا نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ عام طور پر بچے 15 سال کی عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں جبکہ بچیاں 9 سال سے 12 سال تک کی عمر تک بالغ ہو جاتی ہیں۔ مسلمان ہونا غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔ آزاد ہونا غلام نہ ہو۔ مقیم ہونا مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ شرعی طور پر جو شخص 92 کلو میٹر یا اس سے زائد مسافت طے کرے اور وہاں پر 15 دن سے کم قیام کرے وہ مسافر کہلاتا ہے۔ صاحب نصاب ہونا ہر وہ مرد و عورت جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے 52 تولے چاندی یا ان کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد نقدی یا مال ہو ، اسے صاحب نصاب کہتے ہیں۔ قربانی کے ایام میں جیسے ہی وہ شخص صاحب نصاب ہوگا اس پر قربانی واجب ہو جائے گی اس مال پر سال گزرنا ضروری نہیں۔ یاد رہے کہ اگر کچھ مقدار سونے کی ہے اور کچھ مقدار چاندی کی ہے اور کچھ نقدی بھی ہے اور ان سب کو ملا کر ساڑھے 52 تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو وہ بھی صاحب نصاب کہلاۓ گا۔
شریعت مطہرہ نے قربانی کے واجب ہونے کے لئے کچھ شرائط ہمیں بتائیں ہیں وہ شرائط جس شخص میں بھی پائی جائیں اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔ قربانی کا وجوب قرآن و سنت سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالی نے ارشاد فرمایا "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ " پس( اے محبوب) آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھئے اور قربانی کیجیئے"۔ (الکوثر) اس آیت مبارکہ میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور مطلقاً امر وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم مبارک نے ارشاد فرمایا "من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا" "جو فراخی (خوشحالی) کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آنے"۔ (ابن ماجہ : 3123) اس حدیث پاک میں آقا حضور نے قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں ناراضگی کا اظہار فرمایا جو کہ قربانی کے ضروری اور واجب ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
جی نہیں, گھر کے جتنے افراد شرائط کو پہنچتے ہوں, خواہ مرد ہو عورت ہو, الگ قربانی واجب ہوگی۔ مثال کے طور پر شوہر کمائی کرتا ہے اور قربانی کے نصاب کو پہنچتا ہے ,, جبکہ بیوی کے پاس 1 تولہ سونا اور چند روپے موجود ہیں تو بیوی پر قربانی الگ سے واجب ہوگی۔ یعنی شوہر پر الگ اور بیوی پر الگ قربانی واجب ہوگی۔

Eid Milad un Nabi (S.A.W.W) Q/A

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يقینا اللہ تعالیٰ کی ہم پر سب سے بڑھی نعمت ہیں جن کو مبعوث فرما کر اللہ نے مومنین پر احسان بھی جتلایا ہے , ترجمہ : تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنین پر بڑھا احسان کر دیا کہ انہی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ( آل عمران ، آیت 164 ) تو قرآن کریم نے جا بجا اللہ کریم کی نعمتوں پر شکر کی ادائیگی ،اظہار اور چرچا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۱_واذکروا نعمت اللہ علیکم (بقرہ آیت 231 ) ترجمہ ؛ اور یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو تم پر ہوئی , ۲_واما بنعمت ربک فحدث (ضحی آیت 11 ) ترجمہ ؛ اور البتہ اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو , * اسی لیے شریعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور ولادت کے مہینہ میں چرچا کرنا اور شکر کی ادائیگی کرنا رب کے حکم کی تعمیل اور مستحب عمل ہے* , اس نعمت کے ملنے والے دن کو عید قرار دینا بھی قرآن کریم کے عین مطابق عمل ہے کیونکہ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کی اُمت کو آسمان سے دستر خوان عطا ہونے والے دن کو عید قرار دیا گیا ہے, ترجمہ : ہم پر آسمان سے دستر خوان نازل فرما وہ دن ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں کے لیے عید کا دن ہو گا , حوالہ ( مائدہ آیت 114 ) لہٰذا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم شرعی طور بہت اہمیت اور افادیت کی حامل ہے , اس عید کو باقی تمام عیدوں سے بڑھ چڑھ کر بنایا جائے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا نزول ہوا جو کائنات کی سب سے بڑھی نعمت ہے , ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحٰی کے علاوہ بہت سے دنوں کو عید قرار دیا گیا ہے, لیکن نماز عید عید الفطر اور عید الاضحٰی کے موقع پر ہی مشروع فرمائی ، جس طرح جمعہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ان ھذا یوم عید " ترجمہ : بے شک یہ عید کا دن ہے (ابن ابی شیبہ 5054) اسی طرح عرفہ کے دن کو بھی عید قرار دیا گیا لیکن کہیں بھی نماز عید کی ادائیگی کا حکم نہیں ہوا , ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
ہمارے اسلاف عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑھے اہتمام و احتشام کے ساتھ مناتے رہے ہیں میلاد پر بہت سے کتب بھی لکھی ہیں , ۱_المولد الروی فی المولد النبوی ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ۲_مولد العروس ابن جوزی رحمہ اللہ ۳_الموارد الہنیہ في مولد خیر البریہ امام نور الدین سمہودی رحمہ اللہ وغیرہ اسی طرح المولد الروی میں امام سخاوی کے حوالہ سے لکھا کہ انہوں نے فرمایا کہ تمام اہل اسلام میلاد کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے ، صدقۃ و خیرات کا اہتمام کرتے اور مولود شریف پڑھا جاتا تھا , (المولد الروی صفحہ ۲۵ ) مزید ملا علی قاری نے اس دور میں جو محافل اور ضیافت کا عظیم اہتمام ہوتا تھا ملک اندلس ،مصر ،مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور پاک و ہند میں , ان سب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ " میں نے اپنے آپ کو اس مبارک موقع پر ظاہری ضیافت سے عاجز پایا اس لیے معنوی اور نوری ضیافت کے لیے یہ صفحات لکھ دیے تاکہ زمانے کے صفحات پر یہ ہمیشہ باقی رہیں "( المولد الروی صفحہ ۳۶ ) تمام اسلاف کرام اس موقع پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس اور محفل میلاد منعقد کا انعقاد کرتے تھے, ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

General (Q/A)

مرد کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی جائز ہے وہ بھی وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشے سے کم کی ہو , اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی انگوٹھی، چھلا اور کنگن جائز نہیں ہے خواہ وہ پیتل کا ہو، لوہے،تانبا،جست یا سونا ،چاندی یا کوئی اور دھات کا ہو , انگوٹھی سے مراد حلقہ ہے نگینہ نہیں , نگینہ کسی بھی قسم کے پتھر کا ہو عقیق ،یاقوت ،زمرد اور فیروزہ سب جائز ہیں , عورت کے لیے بھی صرف سونا اور چاندی کے زیورات پہننا جائز ہیں باقی سب حرام ہیں, حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف چاندی کی انگوٹھی کو اجازت عطا فرمائی باقی سب چیزوں سے منع فرمایا (ابو داود رقم : 4223)
فاسق" اس شخص کو کہتے ہیں جو ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ملوث رہے، شریعت کے بعض یا تمام احکامات کو پس پشت ڈال کر عملی کوتاہی کرے، اور جو کبائر (بڑے گناہوں) کا مرتکب ہو یا صغائر پر اصرار کرتا ہو۔ اور فاجر سے مراد یہ ہے کہ وہ خلافِ شرع کاموں میں مبتلا ہوکر توبہ کا ارادہ کرتے ہوئے بھی توبہ نہ کرے۔ انجام کے اعتبار سے فاسق وفاجر معنی میں قریب قریب ہیں۔ المفردات في غريب القرآن (1 / 626): "وقوله: ﴿بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسانُ لِيَفْجُرَ أَمامَهُ﴾[القيامة/ 5]، أي: يريد الحياة ليتعاطى الفجور فيها. وقيل: معناه ليذنب فيها. وقيل: معناه يذنب ويقول غدا أتوب، ثم لايفعل فيكون ذلك فجورًا لبذله عهدا لايفي به. وسمّي الكاذب فاجرًا، لكون الكذب بعض الفجور". حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (1 / 303): "والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة وهو معنى قولهم: خروج الشيء عن الشيء على وجه الفساد. وشرعًا: خروج عن طاعة الله تعالى بارتكاب كبيرة. قال القهستاني أي أو إصرار على صغيرة

Eid ul Fitr (Q/A)

جو بچے والدین کی کفالت میں ہیں, انکے تحائف عیدی وغیرہ والدین لے سکتے ہیں, کونکہ وہ عیدی واپس دوبارہ بچوں کے اخراجات پر ہی استعمال ہوتی ہے, اور بہتر ہے بچوں کو بتا کر یا اجازت سے خرچ کی جاۓ ۔ تاکہ بچے بھی بدگمان نہ ہوں, چھوٹے نابالغ بچوں کی ہی بات ہوئی ہے۔ بچہ چھوٹے کو ہی کہتے ہیں۔ اور بالغ بچہ, خود ذمہدار ہے, اسکی عیدی والدین بنا اجازت خرچ نہیں کرسکتے ,,, یا بچے خود والدین کو اپنی مرضی سے ہبہ کردیں, تحفہ دے دیں۔
آپ پر زکوة لازم آئیگی تفصیل ذیل میں موجود ہے۔ تاریخ 26 مارچ 2023 چاندی .52 تولہ۔ 126984روپے ۔ 22 کیرٹ سونا 281597 روپے ڈیڑھ تولہ۔ اصول یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے علاوہ 2 یا زیادہ اشیاء کی قیمت ملا کر اگر چاندی کے نصاب 52 تولہ تک پہنچ جاۓ تو زکوة لازم آیگی, آپکے پاس ڈیڑھ تولہ سونا اور اسکے علاوہ اگر 10 روپے مالیت کی بھی کوئی اضافی رقم یا شے ہے تو سونا کی قیمت اور اس 10 روپے کی قیمت کو ملا کر 52 تولہ چاندی کے نصاب کو کراس کر جاتی ہے, لہذا اس اعتبار سے آپ صاحب نصاب قرار پاۓ اور زکوة ادا کرنا آپ پر لازم ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Engagement Topic (Q/A)

اس جملہ میں صراحت نہیں پائی جاتی, اور نہ یہ ان جملوں میں سے ہے جن سے طلاق صریح واقع ہوتی ہے, لہذا اس جملہ سے کسی قسم کی طلاق واقع نہ ہوگی,,

Purity & Namaz (Q/A)

جی سونگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے, اور کتا اگر گیلا نہ ہو, اس پر کوئی نجاست نہ لگی ہو جو آپکے کپڑے کو نجس کرے, تو ایسی صورت میں آپکے کپڑے پاک ہی ہونگے, آپ نماز ادا کرسکتے ہیں۔
صرف چمڑے کی جرابوں پر مسح کیا جاسکتا ہے, مقیم شخص 1 دن اور 1 رات موزہ پر مسح کرسکتا ہے۔ اور مسافر شخص 3 دن تک موزوں پر مسح کرسکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ اگر موزہ وقت سے پہلے اتر گیا یا اتار دیا, تو پاوں دھو کر دوبارہ پہنا جائیگا۔
غسل کرنا جنابت کیوجہ سے لازم ہوا, اور زیر ناف بال بڑے ہونے کی وجہ سے بال کاٹنا لازم ہوۓ,
اگر پہلا مقتدی مسئلہ جانتا ہو اور پیچھے ہٹنے کی جگہ ہو تو پیچھے ہٹ آئے اور دوسرا مقتدی اس کے برابر کھڑا ہو جائے, اگر پہلا مقتدی مسئلہ نہ جانتا ہو یا پیچھے ہٹنے کی جگہ نہ ہو تو امام آگے چلا جائے, اگر امام کو بھی آگے بڑھنے کی جگہ نہ ہو تو دوسرا مقتدی بائیں طرف آ کر کھڑا ہو جائے , اس کے بعد تیسرا مقتدی آ کر اُن کے ساتھ نہ کھڑا ہو ورنہ تینوں کی نماز مکروہ تحریمی اور نماز لوٹانا واجب ہو گی, هذا ما عندي والله اعلم باالصواب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ 40روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ 40 دن سے تاخیر کرنا گناہ کا باعث ہے, مگر عبادات جمعہ نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں۔ لہذا آپ اسی حالت میں جمعہ ادا کرسکتے ہیں۔
سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ ایک نماز کو موخر کر دیا جائے اور آخر وقت میں پڑھا جائے اور دوسری نماز وقت کے آغاز میں پڑھ لی جائے , اس کے علاوہ دو نمازوں کو ایک ہی نماز کے وقت میں پڑھنے کی کوئی صورت نہیں ہے , رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مزدلفہ اور عرفہ کے مقام پر نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے اس کے علاوہ کہیں بھی نمازوں کو جمع نہ فرمایا, جیسے کہ احادیث مبارکہ سنن نسائی رقم : 3013 ، سنن نسائی 3032 , اور حضرت عمر نے اعلان جاری کیا تھا سارے شهروں میں کہ دو نمازوں کو ایک نماز کے وقت میں جمع کرنا گناہ کبیرہ ہے, موطا امام محمد، رقم: 205 , هذا ما عندي والله اعلم باالصواب,
چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو جب تک وہ پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کرلے قعدہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے ، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔ الفتاوى الهندية (1/ 129): ’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط ضمنا ایک مسلہ ذہن نشین کرلیں کہ , 6 رکعت اسوقت مکمل کی جائینگی۔ جب چوتھی رکعت کا قعدہ کر لیا ہو,,,,,, اور اگر چوتھی رکعت کا قعدہ یعنی تشھد میں بیٹھا ہی نہی اور پانچویں میں کھڑا ہوگیا, تو اب پانچویں رکعت کا سجدہ سے پہلے واپس لوٹ آۓ تشھد پڑھے سجدہ سہو کرلے, نماز ہوجائیگی۔۔۔ اور پانچویں کا سجدہ کرلیا تو نماز باطل ہوجائیگی,,, دوبارہ ادا کرنا ہوگی۔۔
Need Help?
error: Content is protected !!